تعبیر خیال
میں نے ٤/ نومبر ١٩٤٣ء کو سلطان پور کے ایک معزز اور ذی علم گھرانے میں آنکھ کھولی۔ والد ماجد محمد داؤد صدیقی صاحب مرحوم محکمہٴ آبپاشی میں انجینئر تھے اور اردو فارسی نیز انگریزی پر اچھی دست گاہ رکھتے تھے۔ بچپن میں گھر میں "کھلونا"، "پھلواری" اور "غنچہ" وغیرہ رسائل آتے تھے، جن کی کہانیاں اور نظمیں بڑے ذوق و شوق سے پڑھتا تھا۔ بعد ازیں عنفوانِ شباب میں "بیسویں صدی"، "شمع"، "شاعر" اور "آج کل" وغیرہ جرائد زیر مطالعہ رہے۔ لیکن کبھی کوئی شعر تخلیق کرنے کی جسارت نہیں کر سکا۔ ١٩٦٥ء میں بعض دوستوں کی حوصلہ افزائی پر چند غزلیں کہیں اور اس کے بعد وقتاً فوقتاً داخلی تحریک سے یا کسی واقعہ سے متاثر ہونے پر کسی غزل یا نظم کی تخلیق ہو جاتی تھی۔ لیکن غم دوراں نے اتنی فرصت نہیں دی کہ باقاعدہ کسی استاد کے آگے زانوئے ادب تہہ کرتا اور ریاضت سے اپنے فن کو جلا بخشتا۔اسی لیے میں نے اپنی تخلیقات کو اس قابل نہیں سمجھا کہ اسے کسی جریدے میں اشاعت کی غرض سے ارسال کرتا۔ ١٩٦٧ء میں پرفیسر اظہر علی فاروقی صاحب نے جب الہ آباد سے ماہنامہ "شہپر" کا اجراء کیا تو اس کے کئی شماروں میں میری تخلیقات شائع ہوئیں۔ لیکن اس ماہنامہ کے بند ہونے کے بعد یہ سلسلہ منقطع ہو گیا۔ بعد ازیں برادرم ساحل مانک پوری صاحب (جو اب ساحل احمد ہو گئے ہیں) نے اپنے مرتب کردہ مجموعہ "شازینہ" میں میری ایک نظم شامل کی۔اس کے بعد میں نے اپنی کوئی تخلیق کہیں اشاعت کی غرض سے ارسال نہیں کی۔ میری تخلیقات کو منظر عام پر لانے کا سہرا میرے عزیز ترین دوست اور ہندستان کے نامور شاعر جناب بشیر فاروقی کے سر باندھتا ہے۔ انھوں نے میری تخلیقات دیکھ کر میری حوصلہ افزائی فرمائی کہ میرا کلام اس لائق ہے کہ اسے منظر عام پر ضرور آنا چاہیے۔ ان سے تحریک پا کر میں نے اپنی تخلیقات کا مسودہ فخرالدین علی احمد میموریل کمیٹی حکومت اتر پردیش کے سامنے پیش کیا۔ جس نے اس پر مالی امداد مرحمت فرمائی۔ جس سے کم سے کم اتنا اطمینان ضرور ہو گیا ہے کہ میری تخلیقات اس قابل ضرور ہیں کہ انھیں شائع کرایا جائے۔ میں فخرالدین علی احمد میموریل کمیٹی کا شکر گزار ہوں کہ اس کی مالی امداد سے میرا شعری مجموعہ اشاعت پذیر ہوا۔
انگریزی میں ایک مقولہ ہے "اس کرۂ ارض پر کوئی شے نئی نہیں ہے۔" اس لئے یہ دعویٰ کرنے کا کوئی سوال ہی نہیں اٹھتا ہے کہ میں نے اپنی غزلوں میں کوئی نیا خیال یا کوئی نیا پہلو پیش کیا ہے لیکن یہ ضرور ہے کہ مجھے زندگی میں جو تجربات اور مشاہدات ہوئے ہیں اور جن باتوں سے میں متاثر ہوا ہوں ان کو میں نے سادا اور عام فہم الفاظ میں شعر کے قالب میں ڈھالنے کی کوشش کی ہے۔ میں شاعری کو مرصع سازی نہیں سمجھتا بلکہ میرے خیال میں ۔
"شاعری کیا ہے دلی جذبات کا اظہار ہے۔"
میں ادب اور زندگی کے رشتے کو ایک اٹل حقیقت سمجھتا ہوں۔ ایسا ادب جو زندگی سے کوئی علاقہ نہیں رکھتا، جو زندگی کو بہتر بنانے کی جستجو نہیں کرتا، میرے خیال میں بیکار ہے۔ وہ ایک مجذوب کی بڑ کے سوا کچھ بھی نہیں۔
سلیمان صدیقی