غزل
جگمگاتے شہر کی کیا خوب ہیں تاریکیاں
گھر کے باہر ہے اجالا گھر کے اندر ہے دھواں
اے فقیہ شہر اب تو کس لئے خاموش ہے
سچ کے کہنے پر کٹی ہے کس لئے میری زباں
تم بھی رکھتے ہو محبت میرے دل میں بھی خلوص
پھر یہ کیسا فاصلہ میرے تمھارے درمیاں
زندگی ہے یا کسی مفلس کا بوسیدہ لباس
ہے دریدہ پیرہن اڑتی ہیں جس کی دھجیاں
وہ تیری مخمور آنکھیں وہ تیرے ہوٹوں کا لمس
ڈھونڈھتا ہوں چار سو لیکن وہ جنت اب کہاں
وہ تیری مرمری سی باہیں وہ تیرے کاکل کی شب
ہم کبھی سرشار رہتے تھے انھیں کے درمیاں
وہ مہکتی رات جب پہلو میں میرے آپ تھے
یاد ہی اب رہ گئی ہے اب بھلا وہ شب کہاں
زندگی اک دشت کی مانند ویراں ہو گئی
تم نہیں ہو ساتھ تو مہکی ہوئی راتیں کہاں
سلیمان صدیقی
_________________________
A Ghazal by Suleman Siddiqui |