غزل
دل ہی جب شیشے کا لائے
پتھر سے ہم کیوں ٹکرائے
کہنے کو تھے دوست ہزاروں
وقت پہ لیکن کام نہ آئے
اپنوں سے صدہا زخم اٹھا کر
غیروں سے ہیں آس لگائے
پہلی ٹھوکر کھانے والا
اپنے سائے سے کترائے
عزم و یقین ہوں جس کے رہبر
کیوں نہ وہ اپنی منزل پائے
ان کے ہجر میں ہم نے لوگو
زیست کے دن بے کار گنوائے
سلیمان صدیقی
دل ہی جب شیشے کا لائے
پتھر سے ہم کیوں ٹکرائے
کہنے کو تھے دوست ہزاروں
وقت پہ لیکن کام نہ آئے
اپنوں سے صدہا زخم اٹھا کر
غیروں سے ہیں آس لگائے
پہلی ٹھوکر کھانے والا
اپنے سائے سے کترائے
عزم و یقین ہوں جس کے رہبر
کیوں نہ وہ اپنی منزل پائے
ان کے ہجر میں ہم نے لوگو
زیست کے دن بے کار گنوائے
سلیمان صدیقی
ग़ज़ल
दिल ही जब शीशे का लाये
पत्थर से हम क्यों टकराये
कहने को थे दोस्त हज़ारों
वक़्त पे लेकिन काम न आये
अपनों से सदहा ज़ख्म उठा कर
ग़ैरों से हैं आस लगाये
पहली ठोकर खाने वाला
अपने साये से कतराये
उन के हिज्र में हम ने लोगो!
ज़ीस्त के दिन बेकार गँवाये
सुलेमान सिद्दीक़ी
No comments:
Post a Comment